یہاں آنسو بھی موتی بن رہے ہیں
یہاں آہوں سے خوشبو چھن رہی ہے
تمنّائوں کی فصلیں پک رہی ہیں
ارادوں کی سبیلیں لگ رہی ہیں
دعائوں کے گلستاں کھل رہے ہیں
رُلاتا ہے جنہیں پل پل زمانہ
یہاں وہ مسکراتے ہر گھڑی ہیں
یہاں مایوسیاں دم توڑتی ہیں
یہاں مہر و کرم کی ندیاں ہیں
یہاں جود و سخا کی آبشاریں
یہاں تنہائی بھی محفل ہے بنتی
خزائوں کا بہاروں سا چلن ہے
بڑھاپے میں جوانی سی لگن ہے
اخوّت کی ہوائیں چل رہی ہیں
کہ خود داری کی نسلیں پل رہی ہیں
میں داتا کی نگری میں ہوں۔ راستے میں ’اخوت کا سفر‘ پڑھتا آیا ہوں۔ غریبوں مظلوموں کو خود داری اور خود کفالت کی طرف لانے کا سفر۔ میرے اندر کا شاعر جاگ گیا ہے۔ سطریں اتر رہی ہیں۔ میرے سامنے ایک وسیع و عریض آڈیٹوریم میں دمکتی پیشانیاں ہیں۔ چمکتے عزائم ہیں۔ بہت کچھ کہنے کو بے تاب ہونٹ ہیں۔ ہر نشست پر ایک بھرپور کہانی ہے۔ غربت میں خود داری کی منزل کے مسافر ہیں۔ فقر میں فخر کی مثالیں۔ تجسس کی ایک لہر ہے جو ان کرسیوں سے اسٹیج کی طرف دوڑ رہی ہے۔ ان آنکھوں میں اطمینان اور تسکین جھانک رہے ہیں۔ یہ تبدیل ہوتی زندگیاں ہیں۔ اپنے دامن سے اندھیرے اور مایوسیاں جھاڑ کر نئے آفاق تسخیر کرنے کی دھن میں نکلے ہوئے آپ کے اور میرے پاکستانی بھائی۔ یہ مائیں بہنیں، محنت کرتے کرتے یہاں آئی ہیں، کسی بیوٹی پارلر سے سج کر نہیں آئیں۔ انہیں سجنے سنورنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان کے باطن سنور چکے ہیں۔ ضمیر بیدار ہو چکے ہیں۔ ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے عظیم فلسفی، دلوں میں اضطراب پیدا کرنے والے، مشرق میں بیداری کا پیغام دینے والے اقبال کی بہو جسٹس ناصرہ بنفسِ نفیس موجود ہیں۔کہنے کو تو یہ مائیکرو فنانس کے ماہر، بلا سود غریبوں کو قرضہ دینے والے ڈاکٹر امجد ثاقب کی تصنیف ’مولو مصلّی‘ کی رُونمائی ہے لیکن سماں بالکل مختلف ہے۔ کتاب میں جن اولو العزم پاکستانیوں کی کہانیاں ہیں وہ اِدھر اُدھر بیٹھے ہیں۔ غربت کے اندھیروں، قرض کے جنگلوں سے جس طرح وہ خود نکلے ہیں وہ اب دوسروں کو ان ظلمتوں اور خاردار وادیوں سے نکالنے کے لئے پُر عزم ہیں۔ لکھنے والے لکھتے ہیں، بولنے والے بولتے رہتے ہیں لیکن اس کتاب کا مصنّف، بولتا بھی ہے تو کچھ کرنے کے لئے اور اتنا کچھ کررہا ہے کہ سب حیرت زدہ ہیں۔ اکبر الہ آبادی یاد آتے ہیں:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں ۔ سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
میں کہہ رہا ہوں: کتابوں کی رُونمائیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ’مولو مصلّی‘ ان کتابوں میں سے نہیں ہے یہ تو ایک دروازہ ہے جو حیرتوں کے ایک جہان میں کھل رہا ہے۔ جہاں اللہ دتہ، محمد دین، دوست محمد موچی ہیں۔ خواجہ سرا ہیں، سونو ہیں، نازیہ رمضان، کرم علی، غلام محمد، نصیبو، برکتے، ساحل، ظل ہما اور حمیرا۔ سب اپنے اپنے اوزار لئے اپنی دنیا کی چولیں کسنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہ بڑے لوگ ہیں کہ اگر یہ ایک دن بھی کام پر نہ آئیں تو شہر، قصبے گرد و غبار میں اٹ جائیں۔ قدم قدم گندگی ہوجائے۔ بجلی کی مشینیں ساکت ہوجائیں۔ امراء بھوکے مرنے لگیں۔ گاڑیاں چلیں نہ ٹرینیں۔ قتیل شفائی نے ان کے لئے ہی کہا تھا:
جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے
قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں
ذمہ داری تو یہ ریاست اور حکومت کی ہے کہ ان کو اپنی اہمیت اور وقعت کا احساس دلائے۔ ان کو ان کا مقام واپس دلوائے۔ غریبی ہٹائو کے لئے اربوں ڈالر رکھے جاتے ہیں مگر وہ سب دولتمندوں کے گھر چلے جاتے ہیں۔ غربت اسی طرح بال کھولے سوتی رہتی ہے۔
کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصّے کی کچھ جام میں کم تر جاتی ہے
’اخوت‘ ایک خواب ہے جو حقیقت میں ڈھل چکا ہے۔ علاقے غربت سے آزاد کروا رہا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک لانگ مارچ کررہے ہیں۔ ایک دو گائوں ایسے بھی ہیں جہاں اپنی مدد آپ کے تحت راستے صاف ستھرے بنائے گئے ہیں۔ لوگ اچھا لباس پہنتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہاں کوئی تنازع نہیں ہوتا۔ فصلوں کی پیداوار بھی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ بچے سب کے سب اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔
ان علاقوں میں، گھروں میں واقعی وہ سب کچھ ہورہا ہے جو ایک فلاحی ریاست میں ہوتا ہے۔ یہ اصل پاکستان ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جہاں 22کروڑ اللہ کے نائب رہتے ہیں۔ جہاں بے بسی ہے، بے چارگی ہے مگر اسے اعتماد، اعتبار اور اختیار میں بدلا جارہا ہے۔ یہاں نذیر وید ہے جو کراچی کا گند صاف کرنیوالے کے دن بدلنا چاہتا ہے۔ معذور افرد کو بائیسکل فراہم کرنے والا عابد شاہ۔ جہاں چنگا پانی والا نذیر وٹو ہے۔ جہاں خان پور کا حفیظ آرائیں ہے مگر اس پاکستان کو بڑا میڈیا نہیں دکھاتا۔ اس کا پاکستان صرف وزیراعظم ہائوس، بنی گالا، جاتی امراء اور بلاول ہائوس تک محدود ہے۔ تبدیل ہوتا پاکستان، کامیاب ہوتا پاکستان دکھانے سے اس کے پروگرام غیر مقبول ہوجاتے ہیں۔
پاکستان پر ایک پیغمبری وقت اترا ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے کہ کارِ پیغمبری انجام دینے کیلئے ایسے لوگ موجود ہیں جو بغیر سود کے قرضے دے کر پاکستانیوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کررہے ہیں۔ دنیا حیران ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب سے امریکہ والے، یورپی یونین والے اس کامیاب پروگرام کا راز جاننا چاہتے ہیں۔ وہ گلی گلی، قریہ قریہ اخوت کی مشعل بھی جلارہے ہیں۔ ہارورڈ، واشنگٹن، نیو یارک میں ان عظیم پاکستانیوں کی حقیقی کہانی بھی سناتے ہیں جو قرض لے کر اپنی زندگی بدل رہے ہیں اور قرضہ واپس بھی کررہے ہیں۔ باہر کی دنیا والے تو صرف ان پاکستانیوں کے قصّے سنتے آرہے تھے جو اربوں روپے قرض لے کر باہر جائیدادیں بناتے ہیں۔ اخوت آپ کو سودی قرضوں کے چنگل سے نکلنے کیلئے ’لبریشن لون‘ بھی فراہم کرتا ہے۔ بہت سے خاندان ایسے قرضوں سے نجات پاچکے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب آپ قابلِ رشک ہیں کہ آپ خواب بھی دیکھتے ہیں اور تعبیر بھی پارہے ہیں۔ اک نظر میری غریب ماں پاک سر زمین کی طرف بھی۔ یہ ہزاروں ارب روپے کی مقروض ہوچکی ہے۔ اس کیلئے بھی کوئی لبریشن لون۔ قرض حسنہ برائے نجات۔