میری اس سے پہلی ملاقات سالوں پہلے چنیوٹ میں ایک این جی او کی میٹنگ میں ہوئی جہاں وہ اس وقت اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے ، انہوں نے عمر حیات محل چنیوٹ کو ممکنہ حد تک اس کی اصل حالت میں واپس لانے کے لئے تزئین و آرائش کا کام شروع کروا رکھا تھا، چنیوٹ جیسے شہر کے باسیوں کے لئے یہ ایک دلچسپ اور حیرت انگیز تجربہ تھا کہ ایک بیو روکریٹ کو ایک ایسی عمارت کی تزئین و آرائش کا خیال کیوں کر آرہا ہے جس کی قیمتی کھڑکیاں اور دروازے تک لوگ اکھاڑ کر لے جا چکے ہیں جبکہ اوپر کی منزلوں سے ایک دو بالکل منہدم ہو چکی تھیں ۔میں نے ساتھ بیٹھے دوست سے کہا مجھے اس بندے کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک نظر آرہی ہے ، مجھے یہ افسر نہیں ولی اللہ لگ رہا ہے ،زندگی رہی تو دیکھنا ایک دن یہ بندہ کوئی بہت بڑا کام کرے گا اور آج میں اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کر حیران ہو رہا ہوں کہ اللہ کا یہ بندہ پاکستان بھر میں بلا رنگ و نسل اور مذہب 25لاکھ گھرانوں کو 55ارب سے زائد کی رقم قرضہ حسنہ دے کر انہیں بھیک منگتا بنانے کی بجائے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرچکا ہے۔ یہ دنیا بھر میں قرض حسنہ کے لئے چلائی جانے سب سے بڑی این جی او اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں ۔ڈاکٹر امجد ثاقب نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کرکے ایک بڑی سرکاری نوکری حاصل کی،ترقی کی منازل طے کرتے یک لخت سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کرانتہائی بے سروسامانی کے ساتھ ٹاؤن شپ لاہور کی ایک کیچڑ بھری بستی میں ایک لکڑی کے کیبن میں اس تنظیم کا دفتر بناکر اُن غریبوں کا جو بھیک مانگ کر نہیں، بلکہ محنت سے کما کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوناچاہتے ہیں، سہارا بننے کے لئے اس پرُ خار وادی میں اُتر گیا اور آج بھی جبکہ یہ تنظیم اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑی ہو چکی ہے اور اربوں کا لین دین کرتی ہے اورجس کو وہ اپنے وقت کا تین چوتھائی حصہ دیتا ہے، وہ اس سے ایک روپیہ بھی بطور تنخواہ یا اعزازیہ نہیں لیتا ۔
https://mustafaji.blogspot.com/2018/02/blog-post.html
اخوت اور ڈاکٹر امجد ثاقب پر اب تک اتنا لکھا جا چکا ہے اور ڈاکٹر صاحب کو اتنے سر کاری، غیر سر کاری،قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے اور وہ عزت اور شرف کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ میں اب کچھ بھی لکھ دوں تو اُن کی عزت، شہرت اور مقام میں مزیدکوئی اضافہ نہیں کر سکتا، ڈاکٹر امجد ثاقب ایک لازوال کردار اوربامقصدخدمت خلق کا جذبہ رکھنے والوں کے لئے ایک رو ل ماڈل ہیں۔ہر چند کہ پاکستان میں بے شمار لوگوں نے غریبوں، مریضوں، یتیموں اور بے وسیلہ لوگوں کے لئے انتہائی قابل قدر کام کئے ہیں اوران کی جتنی بھی ستا ئش کی جائے کم ہے لیکن اخوت اور ڈاکٹر امجد ثاقب اس لحاظ سے اُن میں نمایا ں اور ممتاز ترہیں کہ انہوں نے ملک کے غریب اور بے وسیلہ لوگوں کی کسی وقتی ضرورت کو پورا کرنے کی بجائے انہیں کوئی کاروبار کرکے اپنے پاؤں پر کھڑاہونے میں مدد دی تاکہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات خود پوری کریں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے دس ہزار روپے کے معمولی سرمائے سے غریب لوگوں کو بلا سود قرضے دینے کا آغاز کیا۔ آج ان کا ادارہ سود کے بغیر چھوٹے قرضے دینے والا دنیا کا ایک بہت بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ اخوت تنظیم بلا سود قرضوں اور پیشہ وارانہ رہنمائی کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ اخوت نادار اور ضرورت مند لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے کے لیے بیس سے پچاس ہزار تک کے بلا سود قرضے فراہم کرتا ہے۔ یہ قرضے بغیر کسی لمبی چوڑی تفتیش کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک سادہ درخواست اور شخصی ضمانت کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔گزشتہ سترہ برسوں میں اخوت تنظیم پچپن ارب روپے مالیت کے بلا سود قرضے غریب اور پسماندہ لوگوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اخوت کے قرضوں سے اب تک پچیس لاکھ سے زائد غریب خاندان مستفید ہو چکے ہیں۔ پاکستان بھرمیں اخوت کی پانچ سو سے زائدشاخیں قائم کی جا چکی ہیں۔ اخوت کی خدمات کا دائرہ چاروں صوبوں کے علاوہ فاٹا، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں تک پھیل چکا ہے۔اس سلسلے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اخوت کے قرضوں کی واپسی کی شرح تقریبا ننانوے فیصد ہے اور یہ قرضے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی معاشی مشکلات کا پائیدار حل غیر ملکی امداد سے ممکن نہیں، بھیک مانگنے والی اقوام کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی حالات کی بہتری کے لیے پاکستانیوں کو ہی اٹھنا ہوگا۔ غربت کے خاتمے کے لیے یہاں لوگوں کو سماجی آگاہی، کپیسٹی بلڈنگ، کاروباری تربیت اوردوسروں کی مدد کرنے والی رضاکارانہ سوچ سے مزین کرنا ہوگا۔ ان کے خیال میں اگر پچاس فیصد پاکستانی بقیہ پچاس فیصد پاکستانیوں کی مدد کا مخلصانہ تہیہ کر لیں تو لوگوں کی مشکلات میں بہت حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔اپنا تجربہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی دیانتدار قوم ہے، اسی لئے تو لاکھوں لوگ چھوٹے چھوٹے قرضوں سے اپنے کاروبار سیٹ کر کے ہمیں قرضے واپس کر رہے ہیں بلکہ اخوت کے ڈونر بن رہے ہیں۔